حوزہ نیوز ایجنسی | رئیس الواعظین الحاج علامہ سید رضی عباس رضوی چھولسی 7/جمادی الثانی سنہ1323ھ بمطابق 12/جون سنہ 1905عیسوی میں چھولس سادات ضلع بلندشہر (ضلع حاضر – گوتم بدھ نگر "نوئیدا") کے ایک علمی گھرانہ میں پیدا ہوئے ۔ ؛ آپ کے والدکا نام سید حفیظ الحسن رضوی تھا جو چھولس سادات کے ایک معزز باشندہ تھے۔
علامہ کی ابتدائی تعلیم چھولس سادات میں ہوئی پھر مدرسہ منصبیہ میرٹھ کا رخ کیا، اسی طرح مدرسہ نورالمدارس امروہہ، مدرسہ واعظین لکھنؤ اور مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ میں زیر تعلیم رہے۔
مولانا کے مشہور و معروف اساتذہ کے اسمائے گرامی کچھ اس طرح ہیں: استاذ العلماءمولانا سید مرتضیٰ حسین، مولانا سید یوسف حسین نجفی، مولانا سید خورشید حسن فلسفی، آیۃ اللہ سید سبط نبی نجفی، سیدالفقہاءمفتی سید احمد علی۔
آپ نے مدرسۃ الواعظین لکھنؤ کے مدیر نجم الملت آیۃ اللہ نجم الحسن رضوی کے دست مبارک سے واعظ کی سند حاصل کی اور انہی کے دست مبارک سے عربی زبان میں اجازہ لیا جس پر چند دیگر اساتذہ کے دستخط موجود تھے، ان میں سے مولانا یوسف حسین صاحب قبلہ، مولانا احمد علی صاحب قبلہ اور مولانا سبط نبی صاحب قبلہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔
تعلیم سے فراغت کے بعد سنہ 1926عیسوی سے سنہ 1928عیسوی تک مدرسہ نورالمدارس امروہہ میں کچھ عرصہ مدرس کی حیثیت سے پہچانے گئے اور کچھ مدت تک فارسی زبان کے پروفیسر کی جانشینی سنبھالی ، مدرسہ کے پرنسپل "مولاناسیدمرتضیٰ حسین" نے آپ کے طرز تعلیم کو بہت زیادہ پسند فرمایااسی لئے سنہ 1927عیسوی اور سنہ 1928عیسوی میں حسن کارکردگی کی بابت اردو زبان میں اسناد عنایت فرمائیں اس کے علاوہ سنہ 1926عیسوی میں نورالافاضل کی سند عربی زبان میں عطا کرچکے تھے۔مدرسہ واعظین لکھنؤ سے فارغ ہونے کے بعدسنہ1928عیسوی کے ماہ رمضان المبارک میں تبلیغ دین کی غرض سے کورالہ ضلع الہ آباد کے لئے عازم سفرہوئے اور اپنی ذمہ داری کو بنحواحسن نبھایا۔ 1929ء سے 1930ء تک کیمبل"اٹک" میں مقیم رہے اور 1931ء میں "اٹک" کے قرب و جوار میں تبلیغ اسلام کے فرائض انجام دیئے۔ وہ مومنین جو اس سے پہلے مسائل شرعی سے واقف نہیں تھےانہیں مسائل سے آشنا کیا۔
سنہ1933ء میں زیارات کی غرض سے سفر کیا۔ سنہ1934ء میں دوبارہ "اٹک" تشریف لے گئے۔ آپ نے متعدد مقامات پر مساجد کی توسیع فرمائی اور مختلف جگہوں پر مساجد کی بنیادیں رکھیں۔ "اٹک" میں ایک شیعہ مسجد تھی جس میں اہلسنت حضرات بھی نماز ادا کرتے تھے، آپ نے اس مسجد کی توسیع فرمائی جس سے شیعہ سنی اتحاد کو تقویت حاصل ہوئی۔
مسجد کی توسیع کے بعد مولانا رضی رضوی نے اس کے پتھر پر قطعہ تاریخ بھی کندہ کرادیا تاکہ مستقبل میں شیعہ سنی فساد پیدا ہونے کا امکان نہ رہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا شاعری کے فن میں بھی ماہر تھے ۔
مولانا موصوف نے "اٹک" میں ایک مدرسہ بھی قائم کیا جس کا نام "مدرسہ رضویہ" رکھا۔ مولانا کے مشہور شاگردوں کے عنوان سے مولانا سید گلاب علی شاہ نقوی اور قاضی احمد حسن سرفہرست ہیں ۔
آپ نے قوم کی فلاح و بہبود کے پیش نظر، درس اخلاق کا خصوصی اہتمام کیا اور اس درس کا اثر یہ ہوا کہ دین اسلام کی ترویج و اشاعت کا مزیدزمینہ فراہم ہوگیا۔
سنہ 1938ء میں شکارپورضلع بلندشہر(یوپی) کے لئے عازم تبلیغ ہوئے۔ 1952ء میں دوبارہ پاکستان گئے اور گوجرانوالہ میں مقیم ہوئے۔ سنہ 1957ء میں خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہوئے اور حج جیسی اہم عبادت کے ارکان بجالانے کا شرف حاصل ہوا۔
مولانا رضی رضوی صاحب میدان خطابت کے سورما تھے، فضائل کے میدان میں ہنگامہ بپاکردینے والے اور مصائب کی دنیا کے ایسے شہنشاہ کہ چند جملوں سے ہی مومنین میں بے تابی کا عالم پیدا ہوجائے!۔
علامہ نے ایک رسالہ تحریر فرمایا جس کا عنوان "فلسفہ شہادت حسینؑ" قرار دیا۔ یہ رسالہ پہلی بارسنہ1939ء میں ماہنامہ الواعظ میں شائع ہوا اور اس کے بعد، گوجرنوالہ میں کتابی صورت میں نشر ہوا۔ مولانا نے ہندوستان وپاکستان کے مختلف شہروں، قصبوں، دیہاتوں اور محلوں میں مجالس وتقاریرکے ذریعہ دین اسلام کی خدمت انجام دی اور نوجوانوں کو راہ ہدایت پر گامزن فرمایا۔ مولانا کو عربی اور فارسی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا ۔ ؛ مولانا نے آخری دم تک تبلیغ دین سے ہاتھ نہیں اٹھایا اور آخر کار راہ دین میں آنے والی تاریکیوں کو ختم کرتے کرتے یہ چراغ6/ذی الحجہ سنہ 1409ھ بمطابق10/جولائی 1989ء میں خود ہی گل ہوگیا اور لاہور میں واقع اقبال ٹاؤن قبرستان میں سپردِ لحد کیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج3، ص67، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2019ء۔
۞۞۞